شاعر: سید نجیب الحسن زیدی
لبنان کے آنسو بہتے ہیں
لبنان میں خون برستا ہے
لبنان سے شعلے اٹھتے ہیں
زہریلے بادل چھائے ہیں
احساس کا سینہ چھلنی ہے
وحشت کے بھالے برسے ہیں
دیواروں سے خوں ٹپکتا ہے
سڑکوں پہ اجل کا ڈیرا ہے
گلیوں میں موت کا پھیرا ہے
ہر گھر میں بسی ہے خاموشی
شہروں میں اداسی چھائی ہے
کچھ سہمے سہمے بچے ہیں کچھ سہمی سہمی مائیں ہیں
زخموں کی ردائیں اوڑھے ہوئے کچھ خون میں ڈوبے لاشے ہیں
کچھ جان بکف
کچھ سر بکفن
دھرتی کے جیالے نکلے ہیں
میدان میں لڑنے جاتے ہیں
مالک کی طرح جندب کی طرح
لیکن جب وہ بستی کی طرف میدان جنگ سے آتے ہیں
ویران مناظر کی جانب اٹھتی ہیں پتھرائی آنکھیں
مائوں بچوں کی لاشوں کے زخمی بہنوں کے جسموں کے
کپڑوں پر خون کے چھاپے ہیں
ہر داغ لہو کا دمکتا ہے
اک باپ کے ٹھنڈے چہرے کو
مایوس یتیمی تکتی ہے
مردہ بیٹے کے ماتھے کو
ممتا نے بڑھ کر چوما ہے
احساس کی پلکیں بھیگی ہیں
ہر ضبط کا باندھ ٹوٹا ہے
سینوں میں محشر برپا ہے
کچھ لوگ مگر یہ کہتے ہیں
لبنان سے ہم کو کیا مطلب ؟
وہ لڑتے ہیں تو لڑنے دو
وہ مرتے ہیں تو مرنے دو
ہم چین و سکون سے رہتے ہیں سو ہم کو یوں ہی رہنے دو
سڑکوں پے ہماری رونق ہے
گلیاں بھی ہماری ہنستی ہیں
بازار ہمارے روشن ہیں
ہر شہر ہمارا جگ مگ ہے
کھیتوں میں بسی ہے ہریالی
باغوں میں سبزہ ہنستا ہے
خوشیوں کی بنسی بجتی ہے
عشرت کی کوئل گاتی ہے
لیکن کچھ سال گزر جانے کے بعد...
ویران ہے اب ہر اک بستی
ہر کوچے خون میں ڈوبے ہیں
ہر گھر میں ہوکا عالم ہے
اب شہر نہیں ویرانے ہیں
کھیتوں میں اگی ہیں چنگاری
باغوں میں آگ کی پھلواری
کل چین کی بنسی بجتی تھی
عشرت کی کوئل گاتی تھی
پر آج کا منظر بدلا ہے
اشکوں کا مینھ برستا ہے
اندوہ کا ڈمرو بجتا ہے
زخموں کی ردائیں اوڑھے ہوئے اب ہر سو خونیں لاشے ہیں
سہمے سہمے بچے ہیں اور سہمی سہمی مائیں ہیں
اس حشر بداماں منظر میں ایک چیخ سنائی دیتی ہے
یہ کیسے ہوا یہ کس نے کیا ؟
مجروح ضمیر پکار اٹھا
لبنان کی تھی یہ چنگاری
لبنان سے شعلے لپکے تھے
لبنان کے آنسو ٹپکے تھے
کل جب لبنان سلگتا تھا
کل جب لبنان دہکتا تھا
تم سوئے تھے، تم چین کی بنسی بجاتے تھے
اب ذلت کے رسوائی کے جھولے میں سدا کو سو جاؤ